Friday 28 June 2024

ایک سوچ عقل سے پھسل گئی

 ایک سوچ


ایک سوچ عقل سے پھسل گئی 

مجھے یاد تھی کہ بدل گئی 

میری سوچ تھی کہ وہ خواب تھا

میری زندگی کا حساب تھا

میری جستجو کے برعکس تھی

 میری مشکلوں کا وہ عکس تھی

مجھے یاد ہو تو وہ سوچ تھی

جو نہ یاد ہو تو گماں تھا 

مجھے بیٹھے بیٹھے گماں ہوا 

گماں نہیں تھا خدا تھا وہ

وہ خدا کے جس نے زبان دی

مجھے دل دیا مجھے جان دی 

وہ زبان جسے نہ چلا سکے 

وہ دل جسے نہ  منا سکے

وہ چاہ جسے نہ لگا سکے 

کبھی مل تو تجھے بتائیں ہم 

تجھے اس طرح سے ستائیں ہم

تیرا عشق تجھ سے چھین کے 

تجھے مہ پلا کے رلائیں ہم 

تجھے درد دوں تو نہ سہ سکے 

تجھے دوں زباں تو نہ کہ سکے 

تجھے دوں مکاں تو نہ رہ سکے 

تجھے مشکلوں میں گھرا کے 

میں ایسا رستہ  نکال دوں 

تیرے درد کی میں دوا کروں 

کسی غرض کے میں سوا کروں 

تجھے ہر نظر پہ عبور دوں 

تجھے زندگی کا شعور دوں 

کبھی مل بھی جائیں گے غم نہ کر 

ہم گر بھی جائیں گے غم نہ کر

تیرے ایک ہونے میں شک نہیں 

میری نیتوں کو تو صاف کر

تیری شان میں کمی نہیں 

میرے اس کلام کو معاف کر


یوسف بشیر قریشی

No comments:

Post a Comment