ایک سوچ
ایک سوچ عقل سے پھسل گئی
مجھے یاد تھی کہ بدل گئی
میری سوچ تھی کہ وہ خواب تھا
میری زندگی کا حساب تھا
میری جستجو کے برعکس تھی
میری مشکلوں کا وہ عکس تھی
مجھے یاد ہو تو وہ سوچ تھی
جو نہ یاد ہو تو گماں تھا
مجھے بیٹھے بیٹھے گماں ہوا
گماں نہیں تھا خدا تھا وہ
وہ خدا کے جس نے زبان دی
مجھے دل دیا مجھے جان دی
وہ زبان جسے نہ چلا سکے
وہ دل جسے نہ منا سکے
وہ چاہ جسے نہ لگا سکے
کبھی مل تو تجھے بتائیں ہم
تجھے اس طرح سے ستائیں ہم
تیرا عشق تجھ سے چھین کے
تجھے مہ پلا کے رلائیں ہم
تجھے درد دوں تو نہ سہ سکے
تجھے دوں زباں تو نہ کہ سکے
تجھے دوں مکاں تو نہ رہ سکے
تجھے مشکلوں میں گھرا کے
میں ایسا رستہ نکال دوں
تیرے درد کی میں دوا کروں
کسی غرض کے میں سوا کروں
تجھے ہر نظر پہ عبور دوں
تجھے زندگی کا شعور دوں
کبھی مل بھی جائیں گے غم نہ کر
ہم گر بھی جائیں گے غم نہ کر
تیرے ایک ہونے میں شک نہیں
میری نیتوں کو تو صاف کر
تیری شان میں کمی نہیں
میرے اس کلام کو معاف کر
یوسف بشیر قریشی
No comments:
Post a Comment