عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کوہِ ادراک سے کچھ نُطق کے نگیں دے دے
خانۂ عرض کو الفاظ کے مکیں دے دے
اس قلم سے نہ لکھی جائے گی مدحِ سرورؑ
مجھ کو جبریلؑ کا پر کوئی نورگیں دے دے
آسمانوں سے تقابل ہے درِ نعت گوئی
اس نہج کی کوئی قرطاس کو زمیں دے دے
چوکھٹِ حضرتِ خاتمؑ سے کبھی نہ اٹھے
سجدۂ عرضِ مودت کو وہ جبیں دے دے
میں یہ سمجھوں گا قدم چُومے ہیں ان کے میں نے
مجھ کو طبیہ کی ذرا خاکِ خشمگیں دے دے
زینتِ آلِؑ محمدﷺ ہو جو زمانے میں
یا خدا ہم کو وہ کردارِ دلنشیں دے دے
نزدِ پروردگار پل میں حسیں ہو جائے
فیض اپنا جسے وہ حُسن آفریں دے دے
واسطہ تجھ کو ہے اکبرؑ کے حسیں چہرے کا
پھر محمدﷺ کا وہ ہمشکلِ نازنیں دے دے
پردۂ غیب میں رکھا ہے چُھپا کر جس کو
قوم کو اب وہ محمدﷺ کا جانشیں دے دے
ارسلان علی زیدی
No comments:
Post a Comment