Wednesday, 26 June 2024

یار اپنوں کی خرافات پہ غم کیا کرنا

 یار! اپنوں کی خُرافات پہ غم کیا کرنا

دُشمنوں کے بھی سوالات پہ غم کیا کرنا

رات دن اشکوں کی برسات پہ غم کیا کرنا

اپنے بگڑے ہوئے حالات پہ غم کیا کرنا

وقت کیسا بھی ہو دو پل میں گُزر جائے گا

درد میں ڈُوبی ہوئی رات پہ غم کیا کرنا

کام اس کا ہے ستانا، وہ ستائے گا ہی

دُشمنِ جاں کی خُرافات پہ غم کیا کرنا

جانتی تھی کی بچھڑنا ہے ہمیں آخر جب

چند لمحوں کی مُلاقات پہ غم کیا کرنا

بے وفائی سے تِری خوب تھے واقف ہم تو

پھر ملی اشکوں کی سوغات پہ غم کیا کرنا


جیوتی آزاد

No comments:

Post a Comment