فئیرویل کہ اب ہم بچھڑ جائیں گے
لاؤڈ میوزک پہ بجتے ہوئے ٹرانس کے بالمقابل اچھلتے ہوئے قہقہے
دستخط شد قمیصوں پہ لکھے ہوئے بے معانی نئے فلسفے، ڈائری
سب کے سب ہاتھوں میں لے کر ہنسی، ڈائری
اپنے لفظوں کو جذبوں میں بُنتے ہوئے
بیتے لمحوں کا سامان ہوتے ہوئے
کرسیوں پر لکھے وقتی جذبوں پہ نادانیوں کے طفیل
لحظہ ہنستے ہوئے، لحظہ روتے ہوئے
خود کو اک دوسرے میں پروتے ہوئے
کچھ تو وہ کہ جنہیں اپنی کوئی خبر ہی نہ تھی
پہلے جن سے کہ جو لاسٹ بنچز کے وارث بنے
وہ بھی آج عہد ناقص میں اپنے کیے درجنوں عشق کاغذ پہ لکھتے ہوئے
اک جہازی نما شکل دے کر اڑاتے ہوئے، گیت گاتے ہوئے
کچھ کھڑے ٹیچروں سے بغلگیر ہوتے ہوئے
اپنے ماں باپ کے خستہ خوابوں کی تعبیر ہوتے ہوئے
شوخ آنکھوں سمیت اپنے سینوں میں شعلے لیے
اپنے اندر بھڑکتے ہوئے
خود سے کوسوں پرے، اپنی منزل کو تکتے ہوئے
مختصراً سبھی اندر چھپی اپنی آواز کو شکل دیتے ہوئے
اور میں اپنے اندر جھلستے ہوئے ہیچھے کونے میں بیٹھا تجھے گھورتا
اس حقیقت کو تسلیم کرنے کی کوشش میں ہوں
کہ اب ہم بچھڑ جائیں گے
فرقان فرقی
No comments:
Post a Comment