Tuesday 25 June 2024

جو عہد نو میں خمیر بشر بنایا جائے

 جو عہدِ نو میں خمیرِ بشر بنایا جائے

سناں کو ہاتھ تو نیزے کو سر بنایا جائے

شبِ حیات کو ایسے سحر بنایا جائے

اک آفتاب سرِ چشمِ تر بنایا جائے

مِرے حواس کو یہ کون حکم دیتا ہے

کہ اس کو مرکزِ قلب و نظر بنایا جائے

میں اپنے پیکرِ خاکی سے مطمئن ہی نہیں

مِرے خدا! مجھے بارِ دگر بنایا جائے

درونِ ذات کسی کا یہ جبر ہے مجھ پر

اسی کو جان، اسی کو جگر بنایا جائے

سکون و راحتِ جاں اب کہیں نہیں ممکن

تمہارے دل کو ہی اب مستقر بنایا جائے

جو ہمنفس بھی ہو، ہمراز بھی ہو، ہمدم بھی

اسی کو کیوں نہ بھلا ہم سفر بنایا جائے

بہت ہی تنگ ہیں یہ لامکاں کے گلیارے

سو دشتِ ذات کو ہی رہگزر بنایا جائے

اگر بنانا ہی لازم ہے کچھ تو اے خالد

خود اپنی خاک کو اب کے گہر بنایا جائے


خالد مبشر

No comments:

Post a Comment