دلِ بے تاب مٹی ہو رہے ہیں
ہمارے خواب مٹی ہو رہے ہیں
تم اپنے جگنوؤں کو رو رہے ہو
یہاں مہتاب مٹی ہو رہے ہیں
اُداسی ناگ بن کر ڈس رہی ہے
جو تھے شاداب مٹی ہو رہے ہیں
بہت دن کے تھکے ہارے مسافر
کنارِ آب مٹی ہو رہے ہیں
اْدھر جنگل کو آتش کھا رہی ہے
اِدھر تالاب مٹی ہو رہے ہیں
حسن سیف
No comments:
Post a Comment