ہم شرح کمال تو نگنجد بہ گمانہا
ہم وصف جمال تو نیاید بہ بیانہا
تیرے کمال کی تشریح گمانوں میں نہیں آتی
تیرے جمال کےوصف بیانوں میں نہیں سماتے
یک واقف اسرار تو نبود کہ بگوید
از ہیبت راز تو فرد بستہ زبانہا
تیرے رازوں سے واقف ایک بھی ایسا نہیں جوراز کہہ دے
تیرے راز کی ہیبت و جلال سے تو زبانیں بند ہو گئیں ہیں
ما مرحلہ در مرحلہ رفتن نتوانیم
در وادئ توصیف تو بگستہ عنانہا
ہم تیری وادی میں منزل بہ منزل نہیں چل سکتے
تیر ی تعریف کرتے کرے تو ہماری باگیں ٹوٹ گئیں ہیں
حسن تو عجیب است جمال تو غریب است
حیران تو دلہا و پریشان تو جانہا
تیرا حسن عجیب ہے تیرا جمال انوکھا ہے
دل حیران ہے اور جان پریشان ہے
چیزے نبود جز تو کہ یک جلوہ نماید
گم د ر نظر ماست مکینہا و مکانہا
اب کوئی شے نہیں جو جلوہ دکھا سکے سوائے تیرے
میری نظر میں تو مکان و مکین گم ہو گئے ہیں
یک ذرہ ندیدیم کہ نبود ز تو روشن
جستیم ز اسرار تو در دہر نشانہا
کوئی ذرہ ایسا نہ دیکھا جس میں تیرا نور نہ ہو
ہم نے دنیا میں تیرے رازوں کی نشانیاں ڈھونڈنے میں کو ئی کسر اُٹھا نہ رکھی
یک تیر نگاہت را ہمسر نتوان شد
صد تیر کہ بر جستہ ز آغوش کمانہا
تیری نگا ہ کے ایک تیر کا سامنامشکل ہے
ادھر تو سینکڑوں تیر تیری آغوش سے نکلے ہیں
دارد شرف از عشق اے فتنہ دوران
در سینہ نہان آتش و در حلق فغانہا
اے فتنہ دوراں شرف (بو علی) عشق کے باعث
اپنے سینے میں عشق کی آگ اور حلق میں آہ و زاری رکھتا ہے
بو علی شاہ قلندر
شیخ شرف الدین
No comments:
Post a Comment