قطعات ارشاد جالندھری
وہ بھی اب پچھتا رہے ہیں مجھ کو ٹھکرانے کے بعد
میں کچھ سنبھلا ہوا ہوں ٹھوکریں کھانے کے بعد
خاک تیری درد مندی،۔ خاک تیرا یہ خلوص
تو نے گر مجھے سراہا میرے مرجانے کے بعد
*
چلو مانا مکیں اکثر مکاں اپنے بدلتے ہیں
مگر جو دل میں بس جائیں وہ کب دل سے نکلتے ہیں
سُلگنا، پھر تڑپنا، ٹوٹنا، جلنا، بکھر جانا
تمہیں پانے کی خاطر ہم کئی سانچوں میں ڈھلتے ہیں
٭
روندے بھی گئے کچلے بھی گئے، ہر دور میں ہم پامال ہوئے
اے بانئ محشر یہ تو بتا، ابھی کتنے محشر باقی ہیں؟
ارشاد مِرے مٹنے سے بھلا دب سکتی ہے آواز مِری
ایسا تو کبھی ممکن ہی نہیں، الفاظ میں جوہر باقی ہیں
ارشاد جالندھری
No comments:
Post a Comment