پوری ہو گئی خواب کی تعبیر کیا
پھر ہلاؤں عدل کی زنجیر کیا
جو ستم گر کو ستم گر نہ لکھے
اس قلم کی عزت و توقیر کیا
جو کسی فرعون کا کاٹے نہ سر
وہ سپہ گر اور وہ شمشیر کیا
جو خدا کی راہ میں بہتے نہ ہوں
ایسے اشکوں کی بھلا توقیر کیا
راہ میں تھک کر گر جائیں کہیں
وہ نشانے باز کیا، وہ تیر کیا
چھین سکتی ہے کسی کی زندگی
وقت کے فرعون کی شمشیر کیا
مہرباں جب کاتب تقدیر ہو
ٹکٹکی کیا، قید کیا، زنجیر کیا
ہے خدا کے ہاتھ میں موت و حیات
زہر کیا اور زہر کی تاثیر کیا
حرا حمید
No comments:
Post a Comment