Friday 7 June 2024

زبان خلق یہ کہتی ہے کبریا ہے تو

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


زبانِ خلق یہ کہتی ہے کبریا ہے تُو

تمام ارض و سماوات کا خدا ہے تو

وجود ہے مِرا آغاز، اور عدم انجام

بہ خلفشار وہ ہے جسے ماورا ہے تو

طلب پہ ہی نہیں موقوف تیرا فیض عمیم

ہر ایک شخص کو بے مانگے دے رہا ہے تو

ہر ایک چیز نے پائی ہے ابتداء مجھ سے

ہر ایک چیز کی لاریب انتہا ہے تو

’نہ ابتداء کی خبر ہے نہ انتہاء معلوم’

ازل ابد کے تعین پہ چھا گیا ہے تو

بہت قریب سے مجھ کو پکارنے والے

بہت ہی دور سے مجھ کو پکارتا ہے تو

نہ پھیر اپنی نگاہیں غریب صادق سے

کہ ایک شاعر بے کس کا آسرا ہے تو


صادق اندوری

No comments:

Post a Comment