Thursday 6 June 2024

زمین کھینچتے ہیں آسمان کھینچتے ہیں

 زمین کھینچتے ہیں، آسمان کھینچتے ہیں

ہم اپنے جسم سے کیا کیا جہان کھینچتے ہیں

بس ایک خطِ محبت ہے اور کچھ بھی نہیں

جِسے ہم اپنے تِرے درمیان کھینچتے ہیں

کِھنچے ہوئے ہیں کسی خواب کی کمان میں ہم

اس ایک اڑان سے سارا جہان کھینچتے ہیں

ہم اپنی عاجزی میں مَست ہیں سو شہر کے لوگ

برائے شغل ہمیں پر زبان کھینچتے ہیں

یہاں تو قیس کی نِسبت سے ہیں، وگرنہ ہمیں

مکین کھینچتے ہیں اور مکان کھینچتے ہیں

غزالِ دشت! ہمارا مزاج اپنا ہے

ہم اپنے ہاتھ سے اپنی کمان کھینچتے ہیں

ہماری عاجزی سے اک پہاڑ خائف ہے

جَبیں کو خاک پہ رکھ کر چٹان کھینچتے ہیں

یہ ارتقا کے مراحل ہیں، ہم یہ جانتے ہیں

ہماری فکر کو کچھ نوجوان کھینچتے ہیں

جنابِ میر کے دیوان پر کھنچے ہوے ہیں

سو شعر پڑھتے ہیں، اپنی زبان کھینچتے ہیں


حفیظ اللہ بادل

No comments:

Post a Comment