عزیز آئے مدد کو نہ غم گسار آئے
زمانے بھر کو مصیبت میں ہم پکار آئے
سمجھ سکی نہ خرد جب تِرے اشارے کو
جنوں نصیب ہمیں تھے جو سُوئے دار آئے
ملے گا تحفۂ دل کے عوض نشاط کہ غم
کسے خبر ہے کہ جیت آئے ہم کہ ہار آئے
جنوں کی آبلہ پائی سے پھول کھلتے گئے
نہ جانے کتنے بیابان ہم نکھار آئے
ہمارے پاس بھی کہنے کو ہیں بہت باتیں
مگر کہے کا ہمارے جو اعتبار آئے
شکست جام پہ روئے شکست دل پہ ہنسے
کچھ ایسے لمحے بھی جاوید ہم گزار آئے
جاوید وششٹ
No comments:
Post a Comment