Thursday 6 June 2024

عزیز آئے مدد کو نہ غمگسار آئے

 عزیز آئے مدد کو نہ غم گسار آئے

زمانے بھر کو مصیبت میں ہم پکار آئے

سمجھ سکی نہ خرد جب تِرے اشارے کو

جنوں نصیب ہمیں تھے جو سُوئے دار آئے

ملے گا تحفۂ دل کے عوض نشاط کہ غم

کسے خبر ہے کہ جیت آئے ہم کہ ہار آئے

جنوں کی آبلہ پائی سے پھول کھلتے گئے

نہ جانے کتنے بیابان ہم نکھار آئے

ہمارے پاس بھی کہنے کو ہیں بہت باتیں

مگر کہے کا ہمارے جو اعتبار آئے

شکست جام پہ روئے شکست دل پہ ہنسے

کچھ ایسے لمحے بھی جاوید ہم گزار آئے


جاوید وششٹ

No comments:

Post a Comment