Thursday 6 June 2024

رہی ہے یوں ہی ندامت مجھے مقدر سے

 رہی ہے یوں ہی ندامت مجھے مقدر سے

گزر رہی ہے صبا جس طرح مِرے گھر سے

چڑھا ہے شوق مجھے ضبط آزمانے کا

لکھوں فسانہ کوئی آئینہ پہ پتھر سے

مسافروں سا کبھی جب میں شہر سے گزرا

تو راستوں میں کئی راستے تھے بنجر سے

تمہارے غم نے ڈبویا ہے پر پکارو تو

میں لوٹ آؤں اسی پل کسی سمندر سے

مزے کی ٹھنڈ غریبوں کی آستین میں ہے

تم آ کے دیکھ لو فٹ پاتھ پر بھی بستر سے


وجے شرما عرش

No comments:

Post a Comment