تکمیل آرزو کا اشارہ نہیں ملا
دریا تو مل گیا ہے کنارہ نہیں ملا
لوٹا ہوں بے قرار فلک سے ہزار بار
تھی جس کی جستجو وہ ستارہ نہیں ملا
اک بار جو ملا تھا دل و جاں لیے ہوئے
وہ شخص زندگی میں دوبارہ نہیں ملا
دونوں جہان کس کے مقدر میں ہیں یہاں
شبنم اگر ملی تو شرارہ نہیں ملا
برسوں سے ہے تلاش کنول جس کی رات دن
ہم کو ابھی وہ یار ہمارا نہیں ملا
جی آر کنول
ڈاکٹر گلشن راٸے کنول
No comments:
Post a Comment