Monday, 7 July 2025

ہجر میں تیرے تصور کا سہارا ہے بہت

 ہجر میں تیرے تصور کا سہارا ہے بہت 

رات اندھیری ہی سہی پھر بھی اجالا ہے بہت 

مانگ کر میری انا کو نہیں دریا بھی قبول 

اور بے مانگ میسر ہو تو قطرہ ہے بہت 

یہ تو سچ ہے کہ شب غم کو سنوارا تم نے 

چشمِ تر نے بھی مِرا ساتھ نبھایا ہے بہت 

بات کرنا تو کُجا اس سے تعارف بھی نہیں 

عمر بھر جس کو ہر اک حال میں سوچا ہے بہت 

جانے کیوں مجھ سے وہ کترا کے گزر جاتا ہے 

جس نے خود مجھ کو کبھی ٹوٹ کے چاہا ہے بہت 

ہم سے فن کار بھی اس دور میں کم ہی ہوں گے 

ہم نے دنیا سے تِرے غم کو چھپایا ہے بہت 

وہ کہیں مجھ سے تغافل کا سبب پوچھ نہ لے 

شان آج اس نے مجھے غور سے دیکھا ہے بہت


سیدہ شان معراج

سیدہ شفق آراء

No comments:

Post a Comment