ہجر میں تیرے تصور کا سہارا ہے بہت
رات اندھیری ہی سہی پھر بھی اجالا ہے بہت
مانگ کر میری انا کو نہیں دریا بھی قبول
اور بے مانگ میسر ہو تو قطرہ ہے بہت
یہ تو سچ ہے کہ شب غم کو سنوارا تم نے
چشمِ تر نے بھی مِرا ساتھ نبھایا ہے بہت
بات کرنا تو کُجا اس سے تعارف بھی نہیں
عمر بھر جس کو ہر اک حال میں سوچا ہے بہت
جانے کیوں مجھ سے وہ کترا کے گزر جاتا ہے
جس نے خود مجھ کو کبھی ٹوٹ کے چاہا ہے بہت
ہم سے فن کار بھی اس دور میں کم ہی ہوں گے
ہم نے دنیا سے تِرے غم کو چھپایا ہے بہت
وہ کہیں مجھ سے تغافل کا سبب پوچھ نہ لے
شان آج اس نے مجھے غور سے دیکھا ہے بہت
سیدہ شان معراج
سیدہ شفق آراء
No comments:
Post a Comment