بگڑتی زیست کی کچھ ساعتیں سنوارسکیں
بس اتنا فاصلہ رکھ پھر تجھ کو پکار سکیں
ہمارے ہاتھ میں خنجر تو دے دیا تُو نے
مگر وہ حوصلہ، ہم جس سے خود کو مار سکیں
کچھ اس لیے بھی لگائی ہے تجھ سے بازئ جاں
کہ ہارنا بھی پڑے تو خوشی سے ہار سکیں
وفا شعار! کبھی ہم سے بے وفائی کر
کہ تیرے بعد بھی ہم زندگی گزار سکیں
کسی کی یاد کو ایسا لباس کرنا ہے
کہ جب بھی چاہیں اسے جسم سے اتار سکیں
حسن جاوید
No comments:
Post a Comment