کبھی ان کا نام لکھا کبھی لکھ کے پھر مٹایا
غم ہجر میں بھی میں نے بڑا لطف ہے اٹھایا
تجھے ہے طلب گلوں کی تو عبث یہ سوچنا ہے
کہیں خار چبھ نہ جائے اگر ہاتھ کو بڑھایا
میری ہے یہی تمنا ترے ساتھ رات گزرے
تیرے واسطے ہی جاناں میں نے روم ہے سجایا
اسی ضد میں بجلیاں بھی وہیں رقص کر رہی ہیں
جہان تنکے تنکے چن کر میں نے آشیاں بنایا
تو ہی خوب جانتا ہے کیا ہے راز اس میں مخفی
تو نے دی زباں کسی کو کوئی بے زباں بنایا
کاشف اختر
No comments:
Post a Comment