Tuesday, 8 July 2025

کبھی ان کا نام لکھا کبھی لکھ کے پھر مٹایا

 کبھی ان کا نام لکھا کبھی لکھ کے پھر مٹایا

غم ہجر میں بھی میں نے بڑا لطف ہے اٹھایا

تجھے ہے طلب گلوں کی تو عبث یہ سوچنا ہے

کہیں خار چبھ نہ جائے اگر ہاتھ کو بڑھایا

میری ہے یہی تمنا ترے ساتھ رات گزرے

تیرے واسطے ہی جاناں میں نے روم ہے سجایا

اسی ضد میں بجلیاں بھی وہیں رقص کر رہی ہیں

جہان تنکے تنکے چن کر میں نے آشیاں بنایا

تو ہی خوب جانتا ہے کیا ہے راز اس میں مخفی

تو نے دی زباں کسی کو کوئی بے زباں بنایا


کاشف اختر

No comments:

Post a Comment