روپ بدلتی مایا کے سو چہرے جاتے آتے
مٹی کی کایا لے کر کیا کھوتے کیا پاتے؟
دھیرے دھیرے ہستی کی سب خاک جھڑی جاتی تھی
کچے برتن، آخر کب تک روحوں کو ڈھو پاتے؟
اک وزنی پربت کے نیچے، صبح دبی تھی اپنی
تتر بتر سپنوں کو لے کر رات کہاں بسراتے
جو کچھ سچ تھا، وہ اپنے اندر تک پیٹھ گیا ہے
سانسوں کی لہریں گزریں گی دُکھ سہتے، غم کھاتے
ہم آندھی میں اُکھڑے پودے اور اتہاس ہمارا
اتنا ہی ہے، دھرتی سے چھٹ کر کس کو اپناتے
سید صادق علی
No comments:
Post a Comment