جیسے جیسے خود نوشتِ دوستاں پڑھتے گئے
دشمنوں کے باب میں کچھ کچھ ورق جھُوٹے لگے
خوش یقیں ہوں میرے اندر کوئی ہے محوِ کلام
میں فقط دو ہونٹ ہوں جو بھی کہے وہ ہی کہے
کیا بھروسہ پتھروں میں ڈُوب جائے آبشار
سانس میں جھکڑ چلے کب جسم کا تودہ ڈھے
ریگزارِ شرق میں اب جُوئے خوں ہے تیز گام
وہ ابابیلیں کہاں ہیں جن سے سیلِ غم تھمے
ہلکی ہلکی بارشوں کی جھالروں کی اوٹ میں
سُرمگیں کہسار کے کافر نظارے کیا ہوئے
کون سا رشتہ ہمارے دل کو چھُوتا سا لگا
یہ سمجھنا تھا نہ مُشکل گرچہ ہم انجان تھے
عہدِ آدم سے رہے ہیں دشمنِ ایماں شہاب
پُر کشش رُخسار دو اور نین دو جادو بھرے
منظر شباب
No comments:
Post a Comment