Wednesday, 9 July 2025

یہ دل کا درد بھی جاگا ہوا سا رہتا ہے

 یہ دل کا درد بھی جاگا ہوا سا رہتا ہے

اندھیری رات کا سایہ گھنا سا رہتا ہے

چمکتی راکھ میں شعلہ دبا سا رہتا ہے

کسی کا نام بھی لب پر رکا سا رہتا ہے

ہماری آنکھ کی مٹی ہمیشہ نم ہی رہی

ہمارا زخم جگر بھی ہرا سا رہتا ہے

اجالے اوڑھ کے آتے ہیں ابر کے چادر

دِیا بھی شام سے اکثر بجھا سا رہتا ہے

کہیں ندی میں کوئی راستہ بنے گا پھر

کسی کے ہاتھ میں ہر دم عصا سا رہتا ہے


معین افروز

No comments:

Post a Comment