تِری بے نیازیوں کا مجھے کچھ گِلہ نہیں ہے
مِرا دل ہے خوب واقف تِرا دل برا نہیں ہے
غمِ دوست درحقیقت تِرا رہنمائے منزل
وہ کم نگاہ نکلا جسے حوصلہ نہیں ہے
مِرے عشق کا مقدر مِری زندگی کا حاصل
غمِ یار کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں ہے
تِرا درد زندگی ہے،۔ تِرا غم مِرا مقدر
مجھے اور چاہیے کیا مِرے گھر میں کیا نہیں ہے
مجھے تُو نے بخش دی ہے جو سزائے دردِ فُرقت
یہ تو عین زندگی ہے ، یہ سزا سزا بنہیں ہے
تِری جستجو کے صدقے یہ کھلا ہے راز مجھ پر
کہ میانِ دَیر و کعبہ کوئی فاصلہ نہیں ہے
رہِ خلق میں لُٹا دے جو متاعِ زندگانی
وہی بندۂ خدا ہے وہ اگر خدا نہیں ہے
نہ جنوں کی حد ہے کوئی نہ ہے عشق ہی مقیّد
کہاں جا رہا ہوں یارو! مجھے کچھ پتا نہیں ہے
یہ جو روشنی ہے ہر سُو تو خِرد ہے کیوں پریشاں
یہ جو جل رہا ہے دل ہے، یہ کوئی دِیا نہیں ہے
مجھے عشق ہے خودی سے میں فریفتہ ہوں خود پر
نہیں جو قریب میرے وہ مِرا خدا نہیں ہے
جو مزا ہے تشنگی میں ہے جو لطفِ بے قراری
تجھے کیا بتاؤں ہمدم! تِرا دل جلا نہیں ہے
کرے کیوں اثر نہ حیرت یہ غزل تِری دلوں پر
یہ نوائے سازِ دل ہے، کوئی فلسفہ نہیں ہے
حیرت فرخ آبادی
جیوتی پرساد مشرا
No comments:
Post a Comment