Wednesday, 8 October 2025

زندگی سوز محبت سے سنواری ہے ترے بندوں نے

 زندگی سوز محبت سے سنواری ہے تِرے بندوں نے

لاکھ دشوار سہی، پھر بھی گزاری ہے ترے بندوں نے

خودکشی، روگ، حوادث ہیں تِرے حکم کی تعمیل کے روپ

بازئ زیست کبھی جان کے ہاری ہے ترے بندوں نے

نوچ لیتا ہے اسے موت کا نقاد کڑی نظروں سے

جھیل کر عمر جو تصویر ابھاری ہے ترے بندوں نے

تیری تخلیق کے افتادہ عناصر کی بھی توہین نہ ہو

ظلم کی آگ بھی اشکوں پہ سہاری ہے ترے بندوں نے

رنج و آلام کو جب قہر تِرا جان کے رو بیٹھے ہیں

تیری رحمت ہی تو پھر تھک کے پکاری ہے ترے بندوں نے

جامِ جم بن کے یہ انوار کی رونق چھلک اٹھا ہے

جب بھی آتشِ زر دل میں اتاری ہے ترے بندوں نے

بے سبب راہی! نہیں حسنِ تصنع کے فسوں کا قائل

دیکھ ہر اصل کی کی انقل اتاری ہے ترے بندوں نے


رام پرکاش راہی 

No comments:

Post a Comment