افلاس میں بھی رنگ بدن کا نہیں اُترا
فاقے بھی کئے ہم نے تو چہرہ نہیں اترا
اک جھونک ہی میں چھو لیا قدموں نے زمیں کو
افلاک سے وہ زینہ بہ زینہ نہیں اترا
پیوست زمیں ہو گئیں سب عظمتیں لیکن
جسموں سے تکبر کا لبادہ نہیں اترا
میں بھی نہ کھرا اترا تِری مصلحتوں پر
تُو بھی مِرے معیار پہ پورا نہیں اترا
عُریانیاں پہنے ہوئے ہیں بیٹیاں اس کی
سر سے کبھی جس ماں کے دوپٹہ نہیں اترا
تا عمر میں کرتا رہا الفاظ کا پیچھا
تا عمر مِرے سر سے یہ سودا نہیں اترا
کیا حال کے قصے لکھے جائیں کہ ابھی تک
ماضی کی حکایات کا نشہ نہیں اترا
دانہ تو بہت ڈالا مِری عقل نے جوہر
آنگن میں کبھی کوئی پرندہ نہیں اترا
مسرور جوہر
No comments:
Post a Comment