پھر تجھے یاد کیا جائے، پکارا جائے
آج کا دن تِری گلیوں میں گزارا جائے
عمر کٹتی تھی کہاں اپنی کہ جو کاٹی ہے
کیسے ممکن ہے، تجھے جیت کے ہارا جائے
یہ محبت کا تقاضا ہے کہ شامِ ہجراں
تیری یادوں کا کوئی نقش سنوارا جائے
یوں اداسی میرے ہمراہ چلی آتی ہے
جیسے کٹتا ہوا دریا کا کنارا جائے
ایک تنہائی مسلسل ہے تعاقب میں سلیم
ایک وحشت ہے، کہیں دل نہ ہمارا جائے
اشرف سلیم
No comments:
Post a Comment