Monday, 13 October 2025

وہ ساتھ ہو تو سمندر خفا نہیں ہوتا

 سکون ہوتا ہے طوفاں بپا نہیں ہوتا

وہ ساتھ ہو تو سمندر خفا نہیں ہوتا

بلند ہوتے ہوئے ہاتھ کٹ چکے ہیں سب

یہاں کوئی بھی شریکِ دعا نہیں ہوتا

سفر میں رکھتی ہے اک نیم بیخودی مجھ کو

کبھی قدم تو کبھی راستہ نہیں ہوتا

یہ زیردست، زبردست ہو نہیں سکتے

مِرے مدینے میں اب معجزہ نہیں ہوتا

تِرا خیال دکھاتا ہے جاگتے میں خواب

بغیر خواب مِرا رت جگا نہیں ہوتا

تِری زمین پہ خود رو درخت ہوں جیسے

کٹیں بھی ہم تو کوئی خوں بہا نہیں ہوتا

مِری زمیں پہ ستارہ کوئی نہیں اگتا

یہاں چراغ کوئی پر کُشا نہیں ہوتا


سفیان صفی

No comments:

Post a Comment