سکون ہوتا ہے طوفاں بپا نہیں ہوتا
وہ ساتھ ہو تو سمندر خفا نہیں ہوتا
بلند ہوتے ہوئے ہاتھ کٹ چکے ہیں سب
یہاں کوئی بھی شریکِ دعا نہیں ہوتا
سفر میں رکھتی ہے اک نیم بیخودی مجھ کو
کبھی قدم تو کبھی راستہ نہیں ہوتا
یہ زیردست، زبردست ہو نہیں سکتے
مِرے مدینے میں اب معجزہ نہیں ہوتا
تِرا خیال دکھاتا ہے جاگتے میں خواب
بغیر خواب مِرا رت جگا نہیں ہوتا
تِری زمین پہ خود رو درخت ہوں جیسے
کٹیں بھی ہم تو کوئی خوں بہا نہیں ہوتا
مِری زمیں پہ ستارہ کوئی نہیں اگتا
یہاں چراغ کوئی پر کُشا نہیں ہوتا
سفیان صفی
No comments:
Post a Comment