ضمیر اپنا بڑا بد نصیب لگتا ہے
یہ اپنے آپ کا گویا رقیب لگتا ہے
صدا کے گھنگرو ہیں ساکت نہ روشنی نہ کرن
یہ شہرِ دل تو بڑا ہی عجیب لگتا ہے
ہو آسماں کہ مِری آرزو کا مرکز ہو
بہت ہی دور ہے، لیکن قریب لگتا ہے
سرائے میں اسے اے شہر یار رکنے دے
یہ ایک شب کا مسافر غریب لگتا ہے
اسے تلاش کرو، سینے میں بسا لو اسے
یہ درد دل میں اگر ہے حبیب لگتا ہے
حسن امام درد
No comments:
Post a Comment