Thursday, 2 October 2025

ضمیر اپنا بڑا بد نصیب لگتا ہے

 ضمیر اپنا بڑا بد نصیب لگتا ہے

یہ اپنے آپ کا گویا رقیب لگتا ہے

صدا کے گھنگرو ہیں ساکت نہ روشنی نہ کرن

یہ شہرِ دل تو بڑا ہی عجیب لگتا ہے

ہو آسماں کہ مِری آرزو کا مرکز ہو

بہت ہی دور ہے، لیکن قریب لگتا ہے

سرائے میں اسے اے شہر یار رکنے دے

یہ ایک شب کا مسافر غریب لگتا ہے

اسے تلاش کرو، سینے میں بسا لو اسے

یہ درد دل میں اگر ہے حبیب لگتا ہے


حسن امام درد

No comments:

Post a Comment