جو مل جائے اک ہمسفر خوبصورت
تو ہو جائے اپنا سفر خوبصورت
ہے اپنوں میں شام و سحر خوبصورت
جہاں ہے محبت وہ گھر خوبصورت
غزل کا مطالعہ کیا تو یہ جانا
زبانوں میں اپنا جگر خوبصورت
نہ محفوظ سلمیٰ نہ اب نربھیا ہے
تو پھر کیسے کہہ دیں نگر خوبصورت
ہمیں عشق ہے آپ سے آج بھی تو
ہے چاہت کا کتنا اثر خوبصورت
ہے وہ خوبصورت جو غم آشنا ہے
خدا کی نظر میں بشر خوبصورت
وظیفہ شبھم جن کا نامِ وفا ہے
حیات ان کی مثلِ قمر خوبصورت
شبھم کشیپ
No comments:
Post a Comment