خلوص اور محبت یہاں روا ہی نہیں
کہ ایسے لفظوں سے اب لوگ آشنا ہی نہیں
بوقتِ مرگ خدا یاد آ گیا اس کو
جو کہہ رہا تھا کسی کا کوئی خدا ہی نہیں
جو بے گناہ تھا وہ زینتِ صلیب ہوا
گناہ گار کی خاطر کوئی سزا ہی نہیں
ہمیں ملے ہیں یہاں باز بھی فسردہ بہت
ہمارے شہر بے چین فاختہ ہی نہیں
خدا ہی جانے ہوئی کون سے خطا مجھ سے
کہ آج ہونٹوں پہ میرے کوئی دعا ہی نہیں
میں کیسے آپ کی تہذیب کو برا کہتا
خود اپنی بہنوں کی آنکھوں میں جب حیا ہی نہیں
اسے پگھلنے کا احساس کس طرح ہو گا
جو تیز دھوپ میں دو گام بھی چلا ہی نہیں
غریب و مفلس و نادار ہے مگر گوہر
امیرِ شہر کے آگے کبھی جھکا ہی نہیں
گوہر شیخ پوروی
سید علی حسنین
No comments:
Post a Comment