بساط زندگی درہم کریں گے
ابھی کچھ اور تیرا غم کریں گے
یہ دنیا ہے ازل سے ایسی دنیا
اسے ہم اور کیا برہم کریں گے
تمہارے درد کے احیاء کی خاطر
جو ہم سے ہو سکے گا، ہم کریں گے
مِری آہوں کے جھونکے دیکھ لینا
تمہیں بھی ایک دن پرنم کریں گے
کبھی تو پھول مہکیں گے چمن میں
کبھی تو گفتگو باہم کریں گے
جھکا دیں گے تِرے چہرے پہ آنکھیں
تِرے چہرے کو پھر شبنم کریں گے
نہ مانے گا ہماری بات نجمی
مگر کاوش تو ہم پیہم کریں گے
سخنور نجمی
No comments:
Post a Comment