موجِ خوشبوئے صبا نے بھی نہارا ہے مجھے
جب کبھی تم نے محبت سے پکارا ہے مجھے
جس سے محبوب کے دیدار کا رستہ نکلے
عشق میں ایسی مشقت بھی گوارا ہے مجھے
یوں تِری یاد کے ہمراہ بہا جاتا ہوں
جیسے دریا میں کسی چھل کا سہارا ہے مجھے
کون کہتا ہے یہ قسمت سے ملا ہے سب کچھ
کون کہتا ہے لکیروں نے سنوارا ہے مجھے
میں تو واضع ہوں حقیقت کے گلابوں کی طرح
تم نے ہی وہم کے خاروں سے ہے مجھے
ہوں کہیں صبح، کہیں شب کا سنہری منظر
یار نے کتنے ہی رنگوں میں اتارا ہے مجھے
عرفان محبوب
No comments:
Post a Comment