Monday, 6 October 2025

رستہ بھی ہمی لوگ تھے راہی بھی ہمیں تھے

 رستہ بھی ہمی لوگ تھے راہی بھی ہمیں تھے

اور اپنی مسافت کی گواہی بھی ہمیں تھے

جو جنگ چھڑی تھی اسے جیتے بھی ہمیں لوگ

رن چھوڑ کے بھاگے وہ سپاہی بھی ہمیں تھے

وہ شہر بسا بھی تھا ہماری ہی بدولت

اس شہر تمنا کی تباہی بھی ہمیں تھے

روشن بھی ہمی سے رہی تقدیر ہماری

اور اپنے مقدر کی سیاہی بھی ہمیں تھے

ہے دام جو دریا میں وہ پھینکا تھا ہمیں نے

اس دام میں پھنستی ہوئی ماہی بھی ہمیں تھے


نسیم صدیقی

No comments:

Post a Comment