دھرتی کے علاوہ تو گزارا نہیں ہونا
رہنا ہے مجھے خاک، ستارہ نہیں ہونا
میں اور کسی در پہ چلا جاتا یہاں سے
پہلے ہی بتا دیتے، تمہارا نہیں ہونا
خود پر بھی تو انسان کا حق ہوتا ہے کوئی
جس کا بھی مجھے ہونا ہے، سارا نہیں ہونا
پھر آنکھ نے اس دل کو کوئی چہرا دکھایا
لگتا تھا مجھے عشق دوبارہ نہیں ہونا
یہ بات لگاتار لگاتی ہے ہمیں زخم
سب کا اسے ہونا ہے ہمارا نہیں ہونا
فرہاد احمد فگار
No comments:
Post a Comment