ہجوم غم میں خوشی کا جواز رہنے دے
حیات و موت میں کچھ امتیاز رہنے دے
ابھی غموں کی بہت تیز دھوپ ہے اے دوست
ابھی تو سایۂ زُلفِ دراز رہنے دے
میں چاہتا ہوں غمِ دل سے بے نیاز رہوں
نگاہِ ناز اگر بے نیاز رہنے دے
کرم نواز نگاہیں رہیں زمانے پر
مِری طرف نگہِ غم نواز رہنے دے
کسی کے لطف و کرم سے نہ ہو کبھی مایوس
دراز دستِ طلب ہے دراز رہنے دے
قدم اٹھا ہی دیا ہے جو راہِ الفت میں
تو اب خیالِ نشیب و فراز رہنے دے
ہزار ترکِ محبت کے بعد بھی رونق
خیالِ دوست سے کچھ سازباز رہنے دے
رونق بدایونی
No comments:
Post a Comment