Wednesday 15 October 2014

نہیں زخم دل اب دکھانے کے قابل

نہیں زخمِ دل اب دِکھانے کے قابل
یہ ناسُور ہے بس چھپانے کے قابل​
تِرے رو برو آؤں کس منہ سے پیارے
نہیں اب رہا منہ دکھانے کے قابل
وفورِ غم و یاس نے ایسا گھیرا
نہ چھوڑا، کہیں آنے جانے کے قابل
شبِ ہجر کی تلخیاں کچھ نہ پوچھو
نہیں داستاں یہ، سُنانے کے قابل
یہ، ٹھکرا کے دل پھر، کہا مسکرا کر
نہ تھا دل یہ، دل سے لگانے کے قابل
جو دیکھا مجھے، پھیر لِیں اپنی آنکھیں
نہ جانا مجھے، منہ لگانے کے قابل
تِری بزم میں، سینکڑوں آئے بیٹھے
ہمیں ایک تھے کیا، اٹھانے کے قابل
یہ کافر نِگاہیں، یہ دلکش ادائیں
نہیں کچھ رہا اب، بچانے کے قابل
دیارِ محبت کے سلطاں سے کہہ دو
یہ ویراں کدہ ہے بسانے کے قابل​
کیا ذکر دل کا، تو ہنس کر وہ بولے
نہیں ہے یہ د ل رحم کھانے کے قابل
نگاہِ کرم یونہی رکھنا خدارا
نہ میں ہُوں، نہ دِل آزمانے کے قابل
نشانِ کفِ پائے جاناں پہ یا رب
ہمارا یہ سر ہو جُھکانے کے قا بل
کبھی قبرِ مشتاقؔ پر سے جو گزرے
کہا، یہ نِشاں ہے مِٹانے کے قابل

احمد مشتاق

No comments:

Post a Comment