Monday 14 September 2015

خود وقت میرے ساتھ چلا وہ بھی تھک گیا

خود وقت میرے ساتھ چلا وہ بھی تھک گیا
میں تیری جستجو میں بہت دور تک گیا
کچھ اور ابر چاند کے ماتھے پہ جھک گئے
کچھ اور تیرگی کا مقدر چمک گیا
کل جس کے قرب سے تھی گریزاں مِری حیات
آج اس کے نام پر بھی مِرا دل دھڑک گیا
میں سوچتا ہوں شہر کے پتھر سمیٹ کر
وہ کون تھا جو راہ کو پھولوں سے ڈھک گیا
دشمن تھی اس کی آنکھ، جو میرے وجود کی
میں حرف بن کے اس کی زباں پر اٹک گیا
اب کوئی سنگ پھینک کہ چمکے کوئی شرر
میں شہرِ آرزو میں اچانک بھٹک گیا
مت پوچھ فکرِ زیست کی غارت گری کا حال
احساس برف برف تھا لیکن بھڑک گیا
احباب جبرِ زیست کے زنداں میں قید تھے
محسنؔ میں خود صلیبِ غزل پر لٹک گیا

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment