پل بھر کو مِل کے اجرِ شناسائی دے گیا
اک شخص، ایک عمر کی تنہائی دے گیا
آیا تھا شوقِ چارہ گری میں کوئی، مگر
کچھ اور دل کے زخم کو گہرائی دے گیا
بچھڑا، تو دوستی کے اثاثے بھی بٹ گئے
کس کی برہنگی، تِری پوشاک بن گئی
کس کا لہو تھا، جو تجھے رعنائی دے گیا
اب گِن رہا ہوں چاک گریباں کی دھجیاں
دیوانگی کا شوق، یہ دانائی دے گیا
تیرے بدن کا لمس، کہاں یاد تھا مجھے
جھونکا ہوا کا درسِ پزیرائی دے گیا
کیوں کر نہ زندگی سے زیادہ عزیز ہو
محسنؔ! یہ زخم بھی تو مِرا بھائی دے گیا
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment