یاروں کی خامشی کا بھرم کھولنا پڑا
اتنا سکوت تھا کہ مجھے بولنا پڑا
صرف ایک تلخ بات سنانے سے پیشتر
کانوں میں پھول پھول کا رس گھولنا پڑا
اپنے خطوں کے لفظ، جلانے پڑے مجھے
خوشبو کی سرد لہر سے جلنے لگے جو زخم
پھولوں کو اپنا بندِ قبا کھولنا پڑا
کتنی عزیز تھی تری آنکھوں کی آبرو
محفل میں بے پیئے بھی ہمیں ڈولنا پڑا
سنتے تھے اس کی بزمِ سخن ناشناس ہے
محسنؔ ہمیں وہاں بھی سخن تولنا پڑا
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment