Monday 14 September 2015

یاروں کی خامشی کا بھرم کھولنا پڑا

یاروں کی خامشی کا بھرم کھولنا پڑا
اتنا سکوت تھا کہ مجھے بولنا پڑا
صرف ایک تلخ بات سنانے سے پیشتر
کانوں میں پھول پھول کا رس گھولنا پڑا
اپنے خطوں کے لفظ، جلانے پڑے مجھے
شفّاف موتیوں کو کہاں رولنا پڑا
خوشبو کی سرد لہر سے جلنے لگے جو زخم
پھولوں کو اپنا بندِ قبا کھولنا پڑا
کتنی عزیز تھی تری آنکھوں کی آبرو
محفل میں بے پیئے بھی ہمیں ڈولنا پڑا
سنتے تھے اس کی بزمِ سخن ناشناس ہے
محسنؔ ہمیں وہاں بھی سخن تولنا پڑا

محسن نقوی​

No comments:

Post a Comment