ابر برسا نہ ہوا تیز چلی ہے اب کے
کتنی ویران تیری یادوں کی گلی ہے اب کے
صبح کی دھوپ اتر آئی مِرے بالوں میں
شب ڈھلی ہے کہ مِری عمر ڈھلی ہے اب کے
کیا کہوں کتنے بہانوں سے بھلایا ہے اسے
ڈھونڈتی ہے بھری برسات میں بجلی کا سراغ
وہ جو اِک شاخ کہ پھولی نہ پھلی ہے اب کے
یا میری آنکھ کی کشکول میں آنسو چمکا
یا اندھیرے میں کوئی شمع جلی ہے اب کے
صحنِ گلشن کی ہوا ہے کہ قضا کی دستک
کتنی سہمی ہوئی اِک ایک کلی اب کے
کس کو فرصت ہے دھواں دیکھنے جائے محسنؔ
جھونپڑی شہر سے کچھ دور جلی ہے اب کے
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment