Monday, 14 September 2015

ابر برسا نہ ہوا تیز چلی ہے اب کے

ابر برسا نہ ہوا تیز چلی ہے اب کے
کتنی ویران تیری یادوں کی گلی ہے اب کے
صبح کی دھوپ اتر آئی مِرے بالوں میں
شب ڈھلی ہے کہ مِری عمر ڈھلی ہے اب کے
کیا کہوں کتنے بہانوں سے بھلایا ہے اسے
یہ قیامت بڑی مشکل سے ٹلی ہے اب کے
ڈھونڈتی ہے بھری برسات میں بجلی کا سراغ
وہ جو اِک شاخ کہ پھولی نہ پھلی ہے اب کے
یا میری آنکھ کی کشکول میں آنسو چمکا
یا اندھیرے میں کوئی شمع جلی ہے اب کے
صحنِ گلشن کی ہوا ہے کہ قضا کی دستک
کتنی سہمی ہوئی اِک ایک کلی اب کے
کس کو فرصت ہے دھواں دیکھنے جائے محسنؔ 
جھونپڑی شہر سے کچھ دور جلی ہے اب کے

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment