Sunday 20 September 2015

دیوار و در سے اتر کے پرچھائیاں بولتی ہیں

دیوار و در سے اتر کے پرچھائیاں بولتی ہیں
کوئی نہیں بولتا، جب تنہائیاں بولتی ہیں
پردیس کے راستوں میں رکتے کہاں ہیں مسافر
ہر پیڑ کہتا ہے قصہ، خاموشیاں بولتی ہیں
موسم کہاں مانتا ہے تہذیب کی بندشوں کو
جسموں سے باہر نکل کے انگڑائیاں بولتی ہیں
اک بار زندگی میں ملتی ہے سب کو حکومت
کچھ دن تو ہر آئینے میں شہزادیاں بولتی ہیں
سننے کی مہلت ملے تو آواز ہے پتھروں میں
اجڑی ہوئی بستیوں میں آبادیاں بولتی ہیں

ندا فاضلی

No comments:

Post a Comment