دیوار و در سے اتر کے پرچھائیاں بولتی ہیں
کوئی نہیں بولتا، جب تنہائیاں بولتی ہیں
پردیس کے راستوں میں رکتے کہاں ہیں مسافر
ہر پیڑ کہتا ہے قصہ، خاموشیاں بولتی ہیں
موسم کہاں مانتا ہے تہذیب کی بندشوں کو
اک بار زندگی میں ملتی ہے سب کو حکومت
کچھ دن تو ہر آئینے میں شہزادیاں بولتی ہیں
سننے کی مہلت ملے تو آواز ہے پتھروں میں
اجڑی ہوئی بستیوں میں آبادیاں بولتی ہیں
ندا فاضلی
No comments:
Post a Comment