Thursday 10 September 2015

مدت کے بعد ان کا جو پیغام آ گیا

مدت کے بعد ان کا جو پیغام آ گیا
اک تشنہ لب کے ہاتھ میں پھر جام آ گیا
اس وقت کی ندامتِ پنہاں نہ پوچھو تو
جب بے خودی میں لب پہ ترا نام آ گیا
کیسے بتاؤں اب جو ہوا کرب روح کو
اکثر تِرے بغیر جب آرام آ گیا
میں کیا کروں کہ ضبطِ تمنا کے باوجود
بے اختیار لب پہ تِرا نام آ گیا
یہ دل مِرا تو روزِ ازل ہی سے تھا خراب
تیری نظر پہ مفت میں الزام آ گیا
طائر کچھ اور دام قفس کے لئے منتظر
صیاد کی زباں پہ مِرا نام آ گیا
اے دل! میں اپنی فتح کو لے کر کروں گا کیا
اس معرکے میں تُو ہی اگر کام آ گیا
میری زباں پہ ایک زمانے کا تھا گلہ
ناگاہ مجھ کو دوست کا پیغام آ گیا
اللہ رے اس کا ذوقِ اسیری کہ جو پرند
اڑنے سے پیشتر ہی تہِ دام آ گیا

جگن ناتھ آزاد

No comments:

Post a Comment