ہجرِ جاناں کی گھڑی اچھی لگی
اب کے تنہائی بڑی اچھی لگی
قریۂ جاں پر اداسی کی طرح
دُھند کی چادر پڑی اچھی لگی
ایک تنہا فاختہ اڑتی ہوئی
زندگی کی گھُپ اندھیری رات میں
یاد کی اک پھُلجھڑی اچھی لگی
شہرِ دل اور اتنے لوگوں کا ہجوم
وہ الگ سب سے کھڑی اچھی لگی
ایک شہزادی مگر دل کی فقیر
اس کو میری جھونپڑی اچھی لگی
دل میں آ بیٹھی غزل سی وہ غزال
یہ تصور کی گھڑی اچھی لگی
تیرا دکھ، اپنی وفا، کارِ جہاں
جو بھی شے مہنگی پڑی، اچھی لگی
آنکھ بھی برسی بہت بادل کے ساتھ
اب کے ساون کی جھَڑی اچھی لگی
یہ غزل مجھ کو پسند آئی فرازؔ
یہ غزل اس کو بڑی اچھی لگی
احمد فراز
No comments:
Post a Comment