وہ جو سنتا ہی نہیں اس کو سناتا کیا ہے
آسمانوں کی طرف ہاتھ اٹھاتا کیا ہے
اشک پینے سے کبھی آگ نہ سینے کی بجھی
روح کی تشنگی پانی سے مٹاتا کیا ہے
راستہ بھول کے سب کھو گئے تاریکی میں
میرا کہنا، کہ خوشامد نہیں آتی مجھ کو
پوچھنا اس کا، کہ آخر تجھے آتا کیا ہے
ڈوبتا بھی ہے، ابھرتا بھی ہے، ہر سانس کے ساتھ
چاند کا اس کے گریبان سے ناتا کیا ہے
خالی کاغذ پہ کوئی ہاتھ دھرے بیٹھا ہے
پردۂ غیب سے اب دیکھئے آتا کیا ہے
شاہنواز زیدی
No comments:
Post a Comment