بچہ اک پہئیے کو لے کر بھاگ رہا تھا
وقت جھکی دیوار کے اوپر بہا ہوا تھا
ہاتھ باندھ کر میرے سارے عدو کھڑے تھے
لیکن میں اپنی تخریب پہ تُلا ہوا تھا
مَشک بھری ہے میں نے دونوں ہاتھ کٹا کر
اس کی آنکھیں بھی کچھ روئی روئی سی تھیں
اور میں بھی اس شام بہت ہی تھکا ہوا تھا
بھیگ رہا تھا سبزہ اوس کے موتی پہنے
سُوکھا بادل کنوئیں کے اندر گرا ہوا تھا
شاہراہوں پر اکھڑے اکھڑے سانس پڑے تھے
دریا بھاری شہر کے نیچے دبا ہوا تھا
سینے سے سانسوں کا رشتہ ٹوٹ چکا تھا
قیدی کے پیروں کا تالا کھُلا ہوا تھا
شاہنواز زیدی
No comments:
Post a Comment