Monday 21 September 2015

بچہ اک پہیے کو لے کر بھاگ رہا تھا

بچہ اک پہئیے کو لے کر بھاگ رہا تھا
وقت جھکی دیوار کے اوپر بہا ہوا تھا
ہاتھ باندھ کر میرے سارے عدو کھڑے تھے
لیکن میں اپنی تخریب پہ تُلا ہوا تھا
مَشک بھری ہے میں نے دونوں ہاتھ کٹا کر
سوچوں کے پانی پر پہرہ لگا ہوا تھا
اس کی آنکھیں بھی کچھ روئی روئی سی تھیں
اور میں بھی اس شام بہت ہی تھکا ہوا تھا
بھیگ رہا تھا سبزہ اوس کے موتی پہنے
سُوکھا بادل کنوئیں کے اندر گرا ہوا تھا
شاہراہوں پر اکھڑے اکھڑے سانس پڑے تھے
دریا بھاری شہر کے نیچے دبا ہوا تھا
سینے سے سانسوں کا رشتہ ٹوٹ چکا تھا
قیدی کے پیروں کا تالا کھُلا ہوا تھا

شاہنواز زیدی

No comments:

Post a Comment