Monday 21 September 2015

اس کی آنکھوں میں محبت کا گماں تک نہیں آج

اس کی آنکھوں میں محبت کا گماں تک نہیں آج
کون سی آگ تھی کل، جس کا دھواں تک نہیں آج
آہنی راستے اگتے ہیں درختوں کی جگہ
والئ شہر کو احساسِ زیاں تک نہیں آج
ہم ہیں تاریخ کی راہوں کے مسافر، جن کی
یہ نشانی ہے، کہ ایسوں کا نشاں تک نہیں آج
لوگ آنکھوں میں چمک کیسے بنا لیتے ہیں
پسِ مژگاں تو کوئی اشکِ نہاں تک نہیں آج
ہو نہ ہو آج مقرر ہے مِرا آخری دن
مِرے بارے میں کوئی جھوٹا بیاں تک نہیں آج
بات تو گرچہ بہت دُور تلک جاتی ہے
آج بس اتنا ہی کافی ہے، وہاں تک نہیں آج

شاہنواز زیدی

No comments:

Post a Comment