Monday 21 September 2015

پھر بلا بھیجا ہے پھولوں نے گلستانوں سے

پھر بلا بھیجا ہے پھولوں نے گلستانوں سے
تم بھی آ جاؤ کہ باتیں کریں پیمانوں سے
رُت پلٹ آئے گی اک آپ کے آ جانے سے
کتنے افسانے ہیں، سننے ہیں جو دیوانوں سے
تحفۂ برگ و گل بادِ بہاراں لے کر
قافلے عشق کے نکلے ہیں بیابانوں سے
بدلا بدلا سا نظر آتا ہے، دنیا کا چلن
آپ کے ملنے سے، ہم جیسے پریشانوں سے
گھول دو ہجر کی راتوں کو بھی پیمانوں میں
ہم تو کھلتے ہوئے غنچوں کا تبسم ہیں ندیم
مسکراتے ہوئے ٹکراتے ہیں طوفانوں سے

مخدوم محی الدین

No comments:

Post a Comment