Monday, 21 September 2015

دین و دل و جاں عشق میں کیا کیا نہیں جاتا

دین و دل و جاں عشق میں کیا کیا نہیں جاتا
اک درد ہے ظالم نہیں جاتا، نہیں جاتا
خود اپنی اداؤں پہ انہیں آنے لگی شرم
لو، ان سے اب آئینہ بھی دیکھا نہیں جاتا
اس قُرب پہ یہ پردہ ہے، اللہ رے تِری شرم
دل میں ہے مگر آنکھ سے دیکھا نہیں جاتا
وہ کیا مِری قسمت کی نکالیں گے بھلا پیچ
جن سے خمِ گیسو بھی نکالا نہیں جاتا
حیرتؔ ہوں کہ رہتا ہوں نگاہوں میں تمہاری
کچھ راز نہیں ہوں میں، کہ سمجھا نہیں جاتا

حیرت بدایونی

No comments:

Post a Comment