Monday 21 September 2015

مانا کہ نکمے ہیں لیکن ہم سے بھی تم اب پانے کے نہیں

مانا کہ نکمے ہیں لیکن ہم سے بھی تم اب پانے کے نہیں
ملنا ہے تو مل لو ہم وطنو! پھر لوٹ کے ہم آنے کے نہیں
جنت میں مئے کوثر بھی سہی گلشن بھی سہی دلبر بھی سہی
ہر لطف سہی، پھر بھی ساقی! ہمسر تِرے میخانے کے نہیں
ناصح ہمیں سمجھائے گا کیا، کوئی ہمیں بہلائے گا کیا
بہلے تو تمہِیں سے بہلیں گے ہر ایک کے بہلانے کے نہیں
کچھ تذکرہ ہے پروانے کا، کچھ ذِکر ہے اک دِیوانے کا
سن سن کے چمکتے ہو تم کیوں، ٹکڑے مِرے افسانے کے نہیں
ہم رازِ نہانِ الفت ہیں، ڈھونڈو نہ ہمیں ہم حیرتؔ ہیں
رہ کر بھی تمہاری آنکھوں میں، تم کو ہی نظر آنے کے نہیں 

حیرت بدایونی

No comments:

Post a Comment