دورانِ سفر میں ہیں رہرو، پایانِ سفر معلوم نہیں
رہبر کو رخ منزل تو کُجا، خود رہگزر معلوم نہیں
یہ چاند کا رنگیں دھوکا ہے، یا سچ مچ نور کا تڑکا ہے
افسوس ابھی اتنا بھی تمہیں مرغانِ سحر معلوم نہیں
طوفان فضا میں چھا تو گیا، موجوں میں تلاطم آ تو گیا
اک ٹیس سی تڑپا جاتی ہے، اک برق سی لہرا جاتی ہے
کیا کہئے کہ سینے میں زخمی، دل ہے کہ جگر معلوم نہیں
لاریب کہ صبحِ صادق کا دنیا میں تو برحق ہے آنا
البتہ ہمارے جیتے جی آئے گی سحر معلوم نہیں
ہر چند کہ ہو تم ہم سے خفا، اوروں کی طرف رخ ہے بھی تو کیا
کیا ہم کو تمہاری آنکھوں کی افتاد نظر معلوم نہیں
اٹھتے نہیں دل کی سمت قدم، کرتے ہو طوافِ دیر و حرم
اللہ کے بندو تم کو بھی، اللہ کا گھر معلوم نہیں
مانا کہ افق پہ کرن پھوٹی، دنیائے چمن بیدار ہوئی
آغازِ سحر معلوم سہی، انجامِ سحر معلوم نہیں
حیرتؔ انہیں انساں کیوں سمجھا، اب ہیں وہ پری اب کیا شکوہ
جب حسن جواں ہو جاتا ہے، لگ جاتے ہیں پر معلوم نہیں
حیرت بدایونی
No comments:
Post a Comment