Monday 21 September 2015

عشق میں جب مرے جذبات کا رخ موڑ دیا

عشق میں جب مرے جذبات کا رخ موڑ دیا
میں نے دنیا کی مہمات کا رخ موڑ دیا
ہیں کچھ ایسے بھی ترے بادہ کشوں میں ساقی
پی کے لہرائے تو خطرات کا رخ موڑ دیا
جلوۂ رو سے کبھی پردۂ گیسو سے کبھی
دن کا منہ پھیر دیا، رات کا رخ موڑ دیا
یہ ہمیں اہلِ جنوں ہیں جو ذرا چونک اٹھے
آن کی آن میں حالات کا رخ موڑ دیا
تیری مخمور نظر دیکھ کے خود ساقی نے
تیری جانب ہی خرابات کا رخ موڑ دیا
ہم فقیروں نے لگایا جو کبھی نعرۂ ہُو
پی کے لہرائے تو خطرات کا رخ موڑ دیا
ہم تو ساقی بھی بدل دیں گے، اگر ساقی نے
بزمِ رِنداں کی روایات کا رخ موڑ دیا
ہم وہی پیکرِ خاکی ہیں کہ اکثر ہم نے
گردشِ ارض و سماوات کا رخ موڑ دیا
کاکلِ یار نے گھنگھور گھٹائیں تو کُجا
پوری برسات کی برسات کا رخ موڑ دیا
کسی نے اک جلوہ سرِ راہ دِکھا کر حیرتؔ
میرے دل، میرے خیالات کا رخ موڑ دیا

حیرت بدایونی

No comments:

Post a Comment