عشق میں جب مرے جذبات کا رخ موڑ دیا
میں نے دنیا کی مہمات کا رخ موڑ دیا
ہیں کچھ ایسے بھی ترے بادہ کشوں میں ساقی
پی کے لہرائے تو خطرات کا رخ موڑ دیا
جلوۂ رو سے کبھی پردۂ گیسو سے کبھی
یہ ہمیں اہلِ جنوں ہیں جو ذرا چونک اٹھے
آن کی آن میں حالات کا رخ موڑ دیا
تیری مخمور نظر دیکھ کے خود ساقی نے
تیری جانب ہی خرابات کا رخ موڑ دیا
ہم فقیروں نے لگایا جو کبھی نعرۂ ہُو
پی کے لہرائے تو خطرات کا رخ موڑ دیا
ہم تو ساقی بھی بدل دیں گے، اگر ساقی نے
بزمِ رِنداں کی روایات کا رخ موڑ دیا
ہم وہی پیکرِ خاکی ہیں کہ اکثر ہم نے
گردشِ ارض و سماوات کا رخ موڑ دیا
کاکلِ یار نے گھنگھور گھٹائیں تو کُجا
پوری برسات کی برسات کا رخ موڑ دیا
کسی نے اک جلوہ سرِ راہ دِکھا کر حیرتؔ
میرے دل، میرے خیالات کا رخ موڑ دیا
حیرت بدایونی
No comments:
Post a Comment