بے تاب ہیں اور عشق کا دعویٰ نہیں ہم کو
آوارہ ہیں اور دشت کا سودا نہیں ہم کو
غیروں کی محبت پہ یقیں آنے لگا ہے
یاروں سے اگرچہ کوئی شکوہ نہیں ہم کو
نیرنگئ دل ہے کہ تغافل کا کرشمہ
یا تیرے علاوہ بھی کسی شے کی طلب ہے
یا اپنی محبت پہ بھروسا نہیں ہم کو
یا تم بھی مداوائے الم کر نہیں سکتے
یا چارہ گرو! فکرِ مداوا نہیں ہم کو
یوں برہمئ کاکلِ امروز سے خوش ہیں
جیسے کہ خیالِ رخِ فردا نہیں ہم کو
شہریار خان
No comments:
Post a Comment