Monday 21 September 2015

بیتاب ہیں اور عشق کا دعوی نہیں ہم کو

بے تاب ہیں اور عشق کا دعویٰ نہیں ہم کو
آوارہ ہیں اور دشت کا سودا نہیں ہم کو
غیروں کی محبت پہ یقیں آنے لگا ہے
یاروں سے اگرچہ کوئی شکوہ نہیں ہم کو
نیرنگئ دل ہے کہ تغافل کا کرشمہ
کیا بات ہے جو تیری تمنا نہیں ہم کو
یا تیرے علاوہ بھی کسی شے کی طلب ہے
یا اپنی محبت پہ بھروسا نہیں ہم کو
یا تم بھی مداوائے الم کر نہیں سکتے
یا چارہ گرو! فکرِ مداوا نہیں ہم کو
یوں برہمئ کاکلِ امروز سے خوش ہیں
جیسے کہ خیالِ رخِ فردا نہیں ہم کو

شہریار خان

No comments:

Post a Comment